سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے تین قاتلوں سمیت موت کے سزا یافتہ 15 قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ان سزا یافتہ قیدیوں کی رحم کی اپیل پر صدر مملکت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ کیے جانے کے سبب کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا: ’رحم کی اپیلوں پر کوئی فیصلہ کرنے میں طویل تاخیر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا جواز ہو سکتی ہے۔‘
عدالت نے کہا کہ اعصابی بیماری اور طویل قید تنہائی بھی عمر قید کی سزا کو کم کرنے کا سبب ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کسی قیدی کی موت کی سزا کی توثیق کے بعد اس قیدی کو صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا حق حاصل ہے۔ لیکن
بیشتر معاملوں میں رحم کی اپیلیں برسوں تک زیرِ غور پڑی رہتی ہیں۔
ایسے ہی 15 قیدیوں نے رحم کی اپیل پر کوئی فیصلہ نہ کیے جانے کی بنیاد پر اپنی سزائے موت کو چیلنج کیا تھا۔ ان میں راجیو گاندھی کو بم دھماکے سے ہلاک کرنے والے تین حملہ آور بھی شامل ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صدر اور گورنر کے ذریعے رحم کی اپیل کے بارے میں فیصلہ کرنا اختیاری معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کی آئینی ذمے داری کا حصہ ہے اور سزا یافتہ قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ بھی سنایا ہے کہ رحم کی اپیل مسترد ہونے کی صورت میں قیدی کو مطلع کیے جانے اور اسے پھانسی دیے جانے کے درمیان کم از کم 14 دنوں کا وقفہ ہونا چاہیے۔